اللہ تعالی اور کائنات کا باہمی تعلق

اسلامی فلسفہ و الٰہیات میں اللہ سبحان و تعالی اور کائنات کے تعلق کا مسئلہ بنیادی اور ہمہ جہت موضوع ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ حقیقت مسلم ہے کہ اللہ رب العزت اور کائنات ایک نہیں بلکہ الگ الگ حقیقتیں ہیں۔ اللہ تعالی خالق و مدبر ہے، جب کہ کائنات اس کی مخلوق اور اس کے امر کی تابع۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا: “اللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ ” اللہ ہی ہر چیز کا خالق اور نگران ہے” (سورہ الزمرآیت نمبر 62) کائنات کی ہر شے اللہ تعالی کی حمد و تسبیح میں مصروف ہے : وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ ” اور ایسی کوئی چیز نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو ” (سورہ الإسراء آیت نمبر 44)۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر انسان اللہ جل جلالہ پر سچا توکل کرے تو وہ اسے رزق ایسے عطا کرے گا جیسے پرندوں کو دیتا ہے (ترمذی، حدیث 2344)۔اسلامی مفکرین نے اس موضوع پر مختلف زاویوں سے بحث کی ہے۔ امام غزالیؒ کے نزدیک اللہ علتِ اولیٰ ہے، اور کائنات اس کے فیضِ ارادہ سے قائم ہے۔ ابنِ عربیؒ نے نظریۂ وحدت الوجود کے تحت اللہ کو کائنات کی تجلیات میں ظاہر مانا، مگر ذاتِ باری تعالیٰ کو ہر مظہر سے ماورا قرار دیا۔ اس کے برعکس ابنِ تیمیہؒ نے زور دیا کہ اللہ اپنی ذات میں مخلوق سے بالکل جدا ہے اور اس میں حلول یا اتحاد کا کوئی امکان نہیں۔ ابنِ رشدؒ نے عقلی بنیادوں پر کہا کہ اللہ ازلی علت ہے، جو زمان و مکان سے ماورا ہو کر کائنات کے نظام کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔قرآن مجید کی متعدد آیات خدا کی قدرتِ کاملہ اور اس کے نظامِ تخلیق کی ہمہ گیریت کو واضح کرتی ہیں: “وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا ” کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے” (سورہ الأنعام آیت نمبر 59) ان تمام نصوص اور آراء کا نچوڑ یہ ہے کہ اللہ اور کائنات کا تعلق علت و معلول اور خالق و مخلوق کا ہے۔ خدا ازلی و ابدی ہے، جب کہ کائنات حادث اور محتاج۔ تمام اسلامی مکاتبِ فکر اس بات پر متفق ہیں کہ کائنات کی ہر حرکت، ہر تغیر اور ہر وجود خدا کے ارادے اور قدرت کے تحت ہے۔ یہی تصور توحیدِ کامل کا مظہر ہے کہ “نہ کوئی شے اس کے برابر ہے، نہ اس سے بالاتر، اور نہ اس کے ارادے سے باہر۔”

الطاف چودھری

08.11.2025

By admin