انسانیت کا خدائی نظام: باہمی تعلقات میں اللہ کی حاکمیت اور عدل کا تقاضا
تمام انسان، خواہ وہ کسی نسل، قوم یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، دراصل اللہ جل جلالہ کی رعیت ہیں اور ان کی زندگیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ چونکہ وہ سب اللہ تعالی کی مخلوق ہیں، اس لیے ان کے درمیان تعلقات اور معاملات کے اصول و ضوابط طے کرنے کا حق بھی صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ انسان اپنی خواہشات یا ذاتی مفادات کی بنیاد پر ایسے قوانین نہیں بنا سکتے جو خالق کے مقرر کردہ نظام کے خلاف ہوں۔ اللہ تعالی نے اپنی کتابِ ہدایت، قرآنِ مجید میں فرمایا ہے: إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ “حکم (اختیارِ قانون) تو صرف اللہ ہی کے لیے ہے، اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔” (سورہ یوسف آیت نمبر 40) یہ آیت مبارکہ اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ زمین پر حاکمیتِ اعلی صرف اللہ تعالی کی ہے، اور اسی کے بنائے ہوئے ضوابط انسانوں کے باہمی تعلقات کی بنیاد ہونے چاہئیں۔رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: “تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اور اللہ کو اپنے بندوں میں سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو اس کے بندوں کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہو۔” (رواہ البزار و الطبرانی) – اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ سب انسان اللہ رب العزت کے کنبے کا حصہ ہیں، اس لیے ان کے درمیان تعلقات میں رحم، انصاف، خیر خواہی اور خدمتِ خلق کا جذبہ ہونا چاہیے۔ حقیقی عدل، امن اور فلاح اسی وقت قائم ہو سکتی ہے جب انسان اپنی انفرادی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی زندگی کو اللہ کے قانون کے تابع کر دیں اور اپنی باہمی وابستگی کو اسی خدائی اصول کے مطابق استوار کریں، کیونکہ یہی اصول انسانیت کی بقا، ترقی اور حقیقی سکون کی ضمانت ہے-
الطاف چودھری
18.10.2025
